ان دنوں عمر سولہ سترہ برس تھی، اچھے برے کی تمیز اور دنیا کو برتنے کا ڈھنگ نہیں آیا تھا۔ سوچوں میں گہرائی نہ تھی کہ زندگی اور مستقبل کے فلسفے کو سمجھتی ۔ بس اچھی شکلوں پر مرمٹنے کو جی چاہتا تھا۔ یہ عمر کا وہ دور تھا جب دل کو ساتھی تلاش ہوتی ہے۔ میں بھی بے مقصد نہیں جھانکتی تھی۔ نظریں کسی حسین ساتھی کی آرزو میں بے قرار رہتی تھیں اور میری بھولی ماں میری نظروں کا مفہوم نہ سمجھتی تھیں۔ تبھی انہوں نے کبھی چھت پر جانے سے منع نہیں کیا۔ ان کا خیال ہو گا یہ اور تو کہیں آتی جاتی نہیں، ایک چھت ہی تو ہے، کھلی فضا میں سانس لے لے۔
یہ اتوار کا دن تھا۔ کافی دنوں سے سامنے والی بلڈنگ میں بالائی منزل پر جو فلور خالی تھا، آج وہاں زندگی کے آثار نظر آئے۔ ایک خوبرو نوجوان گیلری سے جھانک رہا تھا۔ اچانک اس نے نظر اوپر اٹھائی اور مجھے چھت کی منڈیر سے اپنی جانب تکتے پایا۔ بے اختیار وہ معنی خیز انداز میں مسکرادیا اور میں جھینپ کر پیچھے ہو گئی، پر اب چین کہاں تھا۔ ذرادیر بعد پھر جھانکا۔ اس شوخ نے خوش دلی سے ہاتھ ہلا دیا۔ میری نوید سے شناسائی بس ایسے ہی ایک جھلک سے شروع ہو کر ایک مکمل داستان پر ختم ہوئی، مگر میری زندگی کا یہ سفرمنزل پا لینے کے باوجود بھی نامکمل رہ گیا۔ ایک روز جبکہ چھت سے جھانک رہی تھی اور نوید مجھے اشارے کر رہا تھا، میری شامت اعمال والد صاحب گلی سے نمودار ہو گئے۔ وہ گھر کی جانب آرہے تھے۔ میں تو اپنی دنیا کی رنگینی میں کھوئی ہوئی تھی، ان کے آنے کا احساس نہ ہوا لیکن ابو نے مجھ کو نگاہوں کی زبان میں نوید سے گفتگو کرتے دیکھ لیا۔ گھر آئے تو والدہ سے پوچھا۔ سلطانہ کدھر ہے۔ چھت پر ہو گی یا یہیں کہیں ہو گی۔انہوں نے شان بے نیازی سے جواب دیا اور اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔ صغرا بیگم ! کمال ہے تم جوان بیٹی کی ماں ہو اور تم کو خبر ہی نہیں کہ تمہاری بیٹی کہاں ہے۔ اگر چھت پر بھی ہے تو اس بھری دو پہر میں وہاں کیا کر رہی ہے ؟ اب مجھے کیا خبر بھئی … میں تو کچن میں کھانا بنانے میں مصروف ہوں۔ کھانے کو چھوڑو اور بیٹی کی خبر لو۔ چھت پر جاؤ د یکھو تو وہاں کڑکتی دھوپ میں کیا کر رہی ہے۔ والد صاحب کے سخت تیور دیکھ کر امی اوپر آنے کو زینے پر چڑھنے لگیں۔ ان کے قدموں کی آواز پر میرے کان کھڑے ہو گئے۔ زینے پر پہنچ گئی کہ ان کے چھت تک پہنچنے کی نوبت نہ آئے۔ چلو تمہارے ابو آ گئے ہیں اور تم کو پوچھ رہے ہیں۔ میرا دل دھڑک اٹھا۔ خدا نہ کرے مجھے نوید سے اشاروں میں باتیں کرتے تو نہیں دیکھ لیا۔ دل درست خدشے سے دھڑکا تھا۔ انہوں نے ڈپٹ کر پوچھا۔ اتنی تپش ہے اس وقت چھت پر کیا کر رہی تھیں۔ کیا سامنے کی بلڈ نگ میں تمہاری کوئی سہیلی رہتی ہے؟
ان کا ذو معنی جملہ مجھے تازیانے کی طرح لگا اور میں نے جھرجھری لی۔ نہیں تو ابو … ! بس اسی قدر کہہ سکی۔ وہ بھی اس وقت تو غصہ پی گئے لیکن ان کے دل میں جس خدشے نے سر اٹھایا تھا، اس نے ایک ایسی فکر کا روپ دھار لیا جو تپ دق کی مانند بابا جانی کی ہڈیوں کو گھلانے لگی۔ والدہ کچھ ٹھنڈے مزاج کی تھیں اور بالکل بھی عجلت پسند نہ تھیں۔ جو کام مائوں کا ہوتا ہے ، وہ بھی والد صاحب نے خود سر انجام دینے کی ٹھان لی۔ وہ دن، رات مجھے بیاہنے کی چارہ سازی میں لگ گئے۔ قریبی دوستوں سے ذکر کیا کہ میری بیٹی کا رشتہ تلاش کرنا ہے۔ خاندان میں اس کے لئے کوئی اچھار شتہ موجود نہیں ہے۔ آدمی کسی جستجو میں لگ جائے تو کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔ ایک دوست کے توسط سے والد صاحب کو بھی میرے لئے مناسب رشتہ مل گیا۔ ایک روز والد کے دوست شاکر صاحب کی بیگم ہمارے گھر آئیں۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور پسند کر لیا۔ جب والدہ نے آگاہ کیا کہ تمہارے ابو نے ایک لڑکا پسند کر لیا ہے تو میں پریشان ہو گئی، تاہم ماں کی تسلی کو کہا۔ مجھے اس لڑکے کی فوٹو تو دکھائے، تبھی ہاں کروں گی۔ اگلے روز امی نے ایک فوٹود کھائی۔ موصوف کی شکل ایک آنکھ مجھ کو نہ بھائی۔ ذرا بھی خوبصورت نہ تھے اوپر سے کچھ پختہ عمر لگتے تھے کہ سر پر بال بہت کم تھے۔ دیکھتے ہی میں نے فوٹو کو پرے پھینک دیا اور کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا۔ توبہ … توبہ ! کیا آپ کو میرے لئے یہی بر جڑا ہے ؟ ہر گز اس سے شادی نہ کروں گی۔ مر جانا پسند کروں گی۔ اماں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر مجھ کو مزید اس معاملے پر بحث کرنے سے روک دیا کہ تمہارے ابا آجائیں تو ان سے بات کروں گی۔اگلے روز جب ابو دفتر چلے گئے۔ ماں نے کہا۔ میں نے بات کی ہے۔ انہوں نے یہی سوال کیا کہ بیٹی سے پوچھو انکار کی کیا وجہ ہے ؟ محض صورت ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ اصل شے سیرت ہوتی ہے۔ اماں ! سیرت کے ساتھ لڑکی، لڑکے کی پسند کو بھی تو خاطر میں رکھنا پڑتا ہے۔ تو کوئی پسند ہے تیری؟ بتادے یہ بھی میں تیرے باوا سے پوچھ لوں گی۔ سوچا موقع اچھا ہے ، ماں کے کان میں ڈال ہی دوں۔ ایسا نہ ہو بعد میں کہیں میں نے تو پوچھا تھا لیکن تم نے ہی اپنی پسند نہ بتلائی۔ ماں … سامنے والی بلڈ نگ میں جو لوگ آئے ہیں، ان کا لڑکا ہے۔ نوید نام ہے۔ میں زیادہ نہیں جانتی لیکن مجھے وہ لڑکا پسند ہے۔ وہ بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ابا سے کہیں میرا رشتہ اس کے ساتھ کر دیں۔ لڑکا کون ہے، کیا کرتا ہے، کس خاندان سے ہے ؟ ارے بھئی کچھ تو معلوم ہو۔ مجھے نہیں معلوم اماں … ! میں اس سے ملتی تھوڑی ہوں، بس چھت سے ہم بات کر لیتے ہیں۔ وہ نئے لوگ آئے ہیں اور معلومات لینا تو ابا کا کام ہے۔
امی نے اپنا کہا نبھا دیا۔ میری پسند سے ابو کو آگاہ کر دیا۔ وہ تو چراغ پا ہو گئے کہ سب جانتا ہوں، مجھے معلومات لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہاں کوئی فیملی نہیں بلکہ ایک لڑکا تنہا رہتا ہے ، کرائے پر فلیٹ لیا ہے۔اس کے گھر والوں کا اتا پتا کیا معلوم کروں، مجھے وہ سرے سے پسند نہیں ہے۔ اوباش لگتا ہے ، اس کی فیملی بھی ہوتی تب بھی وہ مجھے قبول نہیں ہوتا۔ جو رشتہ شاکر صاحب کے توسط سے آیا ہے ، وہ ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ بیٹی کو سمجھا دو کہ یہ تاک جھانک کا سلسلہ بند کر دے، ورنہ ایسی مار ماروں گا کہ بچے گی نہیں۔ اماں مجھے کیا بتاتیں، وہ یہ سب بلند آواز کے ساتھ گرج برس کر کہہ رہے تھے کہ اب ان کا کہا پتھر کی لکیر ہے اور مزید کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ کسی اجنبی سے رشتہ نہ کریں گے۔ اگلے روز شام کو شاکر صاحب کے ہمراہ ان کے عزیز اور میرے رشتے کے طالب قیوم صاحب اور ان کے صاحبزادے بھی تشریف لے آئے۔ ان لوگوں کو والد صاحب نے چائے پر بلایا تھا تا کہ امی بھی لڑکے کو دیکھ لیں۔اس سے بات چیت کر لیں کہ ماں کی تسلی بھی ہونی چاہئے۔ والدہ نے بات چیت کر لی اور انہیں بھی فہد پسند آ گیا بلکہ وہ تو اس رشتے کی زیادہ طرف دار ہو گئیں۔ جب یہ لوگ ڈرائنگ روم میں تھے، میں چھت پر گئی اور ان لوگوں کو جاتے ہوئے دیکھا۔ پہلی ہی نظر میں مجھے یہ شخص بے حد بر الگا جو کہ اس گھر کا متوقع داماد تھا۔اس وقت سوچ لیا کہ جان دے دوں گی مگر شادی اپنے خوابوں کے شہزادے نوید سے کروں گی جو اس قدر خوبصورت اور ہینڈسم تھا جیسے کسی ملک کا پرنس ہو۔ جب ابلتے چشمے کو راستہ نہ ملے تو وہ پہاڑ کو شق کر ڈالتا ہے۔ میں نے بھی عجلت میں ایک خط لکھ کر نوید کی طرف اچھال دیا۔ وہ دوڑ کر آیا اور خط گلی سے اٹھا لیا۔ خط میں تمام احوال درج کر کے استدعا کی تھی۔ کسی طرح ایک بار ملو تا کہ ہم اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لیں۔ ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ شام کو اس نے گیلری سے قریبی پارک کی جانب اشارہ کیا اور دو انگلیوں سے گیارہ بجے کا وقت بتایا۔ والد صبح دفتر چلے جاتے۔ میں نے کبھی امی سے نہ کہا تھا کسی سہیلی کی طرف جانا ہے۔ پہلی باران کی منت کی کہ رافعہ سے ملنا ہے ۔ وہ بولیں۔ ذرا کام سے فارغ ہولوں تو چلتی ہوں۔ آپ کبھی بھی فارغ نہیں ہو سکتیں کیونکہ آپ کے کام تو ختم ہونے میں نہیں آتے۔ تب تک ابو کے گھر لوٹ آنے کا وقت ہو جائے گا۔ رافعہ کا گھر نزدیک ہی تو ہے ، ساتھ والے پارک کے پاس ! بھولی ماں کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ میری منت سے باتوں میں آگئیں۔ بولیں۔ اچھا جائو لیکن جلدی واپس آجانا۔ آدھ گھنٹے سے زیادہ دیر نہ لگانا، ورنہ میں خود تم کو لینے رافعہ کے گھر آجائوں گی۔ خدا کا شکر ادا کیا۔ دوڑی ہوئی کمرے میں گئی، جلدی سے لباس تبدیل کر کے گھر سے نکل گئی۔ پارک کاراستہ صرف پانچ سات منٹ کا تھا۔ وہ پہلے سے منتظر تھا۔
0 Comments