Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

 ایک اندھا، ایک وعدہ، ایک جنّات کی سایہ دار کہانی


ایک اندھا آدمی، تنہا، دنیا کی نظروں میں بوجھ، ایک ایسا شخص جسے سب نے ٹھکرا دیا تھا۔

اس کے گھر کے باہر لوگ ہنستے، اس کے اندھیرے کو مذاق بناتے۔

لیکن ایک رات... جب چاند نے بھی اپنا چہرہ چھپا لیا، ایک اجنبی لڑکی اس کے دروازے پر آئی۔

وہ لڑکی... اس کی زندگی بدل گئی۔

مگر وہ کون تھی؟ ایک انسان؟ یا کچھ اور؟

یہ کہانی ہے ایک ایسے سفر کی... جہاں ہر قدم پر راز ہے، ہر لمحہ میں خوف ہے، اور ہر سانس ایک امتحان۔

کہانی شروع ہوتی ہے ایک چھوٹے سے گاؤں میں... جہاں ایک 25 سالہ لڑکا بلّال رہتا تھا۔

بلّال کی آنکھوں میں روشنی نہیں تھی... اور شاید اسی وجہ سے دنیا نے اسے کبھی قبول نہ کیا۔

اس کے ماں باپ بہت پہلے گزر چکے تھے، اور گاؤں والوں کے لیے وہ محض ایک بےکار سا وجود تھا۔

“ارے یہ تو کچھ کر نہیں سکتا”... لوگ کہتے، اور اس کے گھر کے سامنے سے گزرتے وقت ہنکار بھرتے۔

بلّال کا گھر گاؤں کے کونے میں ایک بوسیدہ سی جھونپڑی تھی۔ جہاں ہوا بھی ڈرتے ڈرتے آتی تھی۔

دن بھر وہ اپنے ہاتھوں سے چھوٹی چھوٹی ٹوکریاں بناتا... جنہیں بیچنے کی کوشش کرتا، مگر لوگ اسے قیمت نہ دیتے۔

بس ترس کھا کر دو روٹیاں دے دیتے۔

رات کو جب دنیا سو جاتی، بلّال تنہا بیٹھتا... اپنے اندھیرے میں، خود سے باتیں کرتا۔

"اللہ... تُو نے مجھے ایسا کیوں بنایا؟ کیا میرا وجود صرف درد سہنے کے لیے ہے؟"

مگر ایک رات... کچھ ایسا ہوا جو اس کے اندھیرے کو ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔

کیا تھا وہ لمحہ؟ ایک آواز؟ ایک سایہ؟ یا وہ ہستی جس نے اس کی زندگی میں روشنی بھر دی؟

اس رات سردی کچھ زیادہ ہی تھی۔ جھونپڑی کے کونے میں بلّال ایک پھٹے پرانے کمبل میں لپٹا بیٹھا تھا۔ باہر ہوائیں سرسراتی ہوئی ایسے لگ رہی تھیں جیسے کوئی کسی کو پکار رہا ہو۔

اچانک... دروازے پر دستک ہوئی۔

ٹھک... ٹھک...

بلال چونک گیا۔

"اس وقت؟ کون ہو سکتا ہے؟" اُس نے دبے دبے لہجے میں کہا۔

وہ اندھا ضرور تھا، لیکن اس کے کان بہت تیز تھے۔ اس نے قدموں کی چاپ سنی — ہلکی، دھیمی، جیسے کسی لڑکی کی۔

"کک...کون ہے؟"

خاموشی۔

پھر ایک نرم سی آواز آئی —
"میں... میں سردی میں بھٹک گئی ہوں۔ کچھ دیر کے لیے پناہ چاہیے..."

بلال نے دروازہ کھولنے سے پہلے ہچکچاتے ہوئے پوچھا:
"تم... اکیلی ہو؟"

"جی... مجھے ڈر لگ رہا ہے، براہِ کرم مجھے اندر آنے دیں۔"

بلال نے دروازے کی کنڈی کھولی، اور سرد ہوا کے جھونکے کے ساتھ وہ لڑکی اندر داخل ہوئی۔

اس کے کپڑوں سے نمی کی خوشبو آ رہی تھی، اور اس کی سانسیں تیز تھیں۔
بلال نے اپنے چھوٹے سے چولہے کی طرف اشارہ کیا:
"یہاں بیٹھ جاؤ... آگ بجھ رہی ہے، پر تھوڑی گرمی ہے۔"

لڑکی چپ چاپ بیٹھ گئی۔ چند لمحوں بعد اس نے کہا:
"تمہیں ڈر نہیں لگا؟ ایک اکیلی اجنبی لڑکی تمہارے گھر آئی... اور تم نے دروازہ کھول دیا؟"

بلال نے مسکرا کر کہا:
"ڈرنے والے تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو دیکھ سکتے ہیں۔ میں تو اندھا ہوں... میرے لیے چہرے نہیں، صرف آوازیں ہوتی ہیں۔"

لڑکی نے کچھ دیر خاموشی اختیار کی... جیسے وہ اس جواب سے متاثر ہوئی ہو۔

پھر اس نے پوچھا:
"تمہیں یہاں اکیلے رہتے ہوئے کیسا لگتا ہے؟"

بلال نے ایک گہرا سانس لیا:
"اندھیرے کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ پر ہاں، کبھی کبھی لگتا ہے جیسے کوئی ہے میرے آس پاس... کوئی جو دکھ بانٹنا چاہتا ہے۔"

لڑکی نے آہستہ سے کہا:
"شاید تمہاری تنہائی اب ختم ہونے والی ہے..."

بلال چونکا:
"کیا مطلب؟"

لڑکی نے جواب نہ دیا۔ بس ہلکی سی ہنسی ہنسی... اور وہ ہنسی ایسی تھی جیسے کوئی بہت پرانی روح صدیوں بعد مسکرا رہی ہو۔


رات کافی گزر چکی تھی۔ جھونپڑی کے اندر ایک خاموش سا سکون تھا، مگر بلال کا دل بے چین تھا۔ وہ اُس لڑکی کی موجودگی کو صرف محسوس ہی نہیں کر رہا تھا، بلکہ جیسے اس کے اندر کوئی اجنبی سی کشش بھی محسوس ہو رہی تھی۔

"تمہارا نام کیا ہے؟" بلال نے ہمت کر کے پوچھا۔

لڑکی نے کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد جواب دیا:
"مینا..."

بلال نے نام دہرایا، "مینا..."
پھر آہستہ سے بولا، "یہ نام میں نے پہلے بھی سنا ہے... پر کہاں؟"

مینا نے آہستہ سے کہا،
"شاید خوابوں میں؟ یا پھر اُن لمحوں میں جب تم خود سے باتیں کرتے ہو؟"

بلال چونک گیا۔
"تمہیں کیسے معلوم؟"

مینا نے ہلکی سی سرد سانس لی،
"میں یہاں کئی بار آئی ہوں، بلال۔ تم نے محسوس کیا، مگر پہچانا نہیں۔"

بلال کی پیشانی پر پسینہ آ گیا، حالانکہ جھونپڑی میں سردی تھی۔

"کک... کیا مطلب ہے تمہارا؟"

مینا نے چولہے کے قریب جھک کر اپنی انگلیاں آگ کے سامنے پھیلائیں... مگر بلال نے کچھ عجیب محسوس کیا — آگ کی تپش تو تھی، مگر مینا کے وجود میں سردی تھی... گہری، ڈراؤنی سردی۔

"مینا... تم... کیا تم کوئی انسان ہو؟"

مینا کی آواز میں ایک پرانا درد تھا، جیسے صدیوں کا بوجھ ہو:
"کبھی تھی... اب صرف ایک خواہش ہوں... ایک ادھورا انتظار..."

بلال کی سانسیں رک گئیں۔
"کیا... تم مر چکی ہو؟"

مینا نے آہستہ سے کہا،
"نہیں بلال... میں دفن کی جا چکی ہوں... مگر موت کو قبول نہیں کر پائی۔"

جھونپڑی کے باہر ہوا زور زور سے چلنے لگی، اور دروازہ دھڑ دھڑ بجنے لگا — جیسے کوئی بھاگ رہا ہو، یا پھر کسی نے کوئی حد پار کر لی ہو۔

بلال نے گھبرا کر کہا:
"مینا! تم یہاں کیوں آئی ہو؟ مجھ سے کیا چاہتی ہو؟"

مینا کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے —
"بس تمہاری آواز... تمہارا صبر... تمہارا یقین... مجھے چین نہیں لینے دیتا۔ تم وہ شخص ہو جو بغیر دیکھے محبت کر سکتا ہے، بلال۔"

بلال خاموش ہو گیا... اندر کہیں ایک جذبہ جاگ اٹھا تھا، مگر خوف نے اسے جکڑ لیا تھا۔

"مینا... تم کیا چاہتی ہو مجھ سے؟"

مینا نے آہستہ سے کہا،
"ایک وعدہ۔ ایک وعدہ کہ تم مجھے وہ چیز لا دو گے، جو میری موت کی وجہ بنی۔"

بلال نے خوف سے پوچھا:
"وہ... کیا ہے؟"

مینا کے چہرے پر ہلکی سی روشنی چمکی... اور اس نے صرف اتنا کہا:

"وہ راز جو میرے قتل کے پیچھے چھپا ہے۔"


رات کا اندھیرا اب دھیرے دھیرے مدھم ہو رہا تھا۔ فجر کی اذان کی آواز دور کسی مسجد سے آ رہی تھی، مگر جھونپڑی کے اندر ابھی تک رات کا خوف چھایا ہوا تھا۔ بلال، جو کبھی کسی سے ڈرا نہیں تھا، آج ایک ایسی حقیقت کے قریب کھڑا تھا جس نے اس کی روح کو لرزا دیا تھا۔

"مینا... تم کہہ رہی ہو تم قتل کی گئی ہو؟"
بلال کی آواز میں حیرت، خوف اور درد سب گھل چکے تھے۔

مینا نے آہستہ سے گردن ہلائی۔
"ہاں بلال... میری روح اُس وقت قید ہو گئی جب میری بے گناہی دفن کی گئی، اور مجھ پر ایک ایسا الزام لگا جس کا میں تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔"

بلال نے پوچھا، "کس نے تمہیں قتل کیا؟ اور کیوں؟"

مینا نے جھونپڑی کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا،
"وہاں... وہ پرانا صندوق... اُسے کھولو۔"

بلال نے گھبرا کر وہ بوسیدہ سا لکڑی کا صندوق کھولا۔ اندر پرانی چیزیں تھیں — کچھ کپڑے، ایک ڈائری، اور ایک چھوٹا سا خنجر۔ خنجر کے دستے پر سرخ دھبہ تھا... خون کا دھبہ۔

"یہ کیا ہے؟" بلال نے پوچھا۔

مینا کی آواز جیسے قبروں سے آئی ہو،
"یہی وہ ہتھیار ہے جس سے میری سانسیں چھینی گئیں۔"

بلال کا دل دھڑکنے لگا۔ "کس نے؟ کیوں؟"

مینا نے آنکھیں بند کر کے کہا:
"میرے شوہر نے... اُس نے مجھ پر بے وفائی کا جھوٹا الزام لگایا... جب کہ میں نے اس کے ہر ظلم کو چپ چاپ برداشت کیا۔ مگر اس رات... اُس کی غیرت جاگی... اور میری زندگی بجھا دی۔"

بلال کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
"وہ تمہارا شوہر... اب کہاں ہے؟"

مینا نے کہا:
"وہ آج بھی اسی گاؤں میں ہے... لوگ اسے عزت دار سمجھتے ہیں... لیکن اس کے ہاتھوں پر میرا خون ہے۔ بلال، تم ہی ہو جو مجھے انصاف دلا سکتے ہو۔"

بلال نے جھجکتے ہوئے کہا:
"میں کیا کر سکتا ہوں؟"

مینا نے آہستہ سے کہا:
"تم میرے قاتل کو بے نقاب کرو۔ تمہیں صرف اُس ڈائری کو پڑھنا ہوگا۔ اس میں وہ سچ چھپا ہے جو سب نے چھپا لیا تھا۔"

بلال نے ڈائری کو کھولا۔ پہلا صفحہ ہی ہولناک تھا:

"اگر کسی دن یہ ڈائری کسی سچے انسان کے ہاتھ لگے، تو وہ جان لے کہ مینا بے قصور تھی... اور اس کا قاتل کوئی اور نہیں، اس کا شوہر سالم خان تھا..."

بلال کے ہاتھ کانپنے لگے۔ سالم خان؟ وہ تو گاؤں کا بڑا معزز شخص تھا، مسجد کا نمازی، مجلسوں کا مہمان...
"یہ کیسے ممکن ہے؟"

مینا کی آواز ٹوٹی پھوٹی،
"سچ چھپایا جا سکتا ہے، بلال... لیکن مٹایا نہیں جا سکتا۔ تمہیں اب وہی کرنا ہے جو میں اپنی زندگی میں نہ کر سکی۔"

بلال نے مٹھی بند کی۔
"میں وعدہ کرتا ہوں، مینا... میں تمہیں انصاف دلا کر رہوں گا۔"

مینا کی آنکھوں میں پہلی بار سکون کا ہلکا سا عکس اُبھر آیا... مگر ساتھ ہی، باہر ہوا میں ایک چیخ گونجی... جیسے کسی کو اس وعدے کا علم ہو گیا ہو۔

بلال کے وعدے کے بعد جھونپڑی کی فضا جیسے کچھ لمحوں کے لیے رک سی گئی۔ مینا کی روح دھیرے دھیرے مدھم ہونے لگی۔ اس کا چہرہ جو ہمیشہ غم سے لبریز رہا، اب کسی حد تک پُرسکون نظر آ رہا تھا۔ بلال سمجھ چکا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے جب اسے سچ کے لیے لڑنا ہے — مگر یہ لڑائی آسان نہ تھی۔

صبح ہوتے ہی بلال نے وہ ڈائری، خنجر اور صندوق کے کچھ ثبوت اپنے تھیلے میں رکھے اور سیدھا گاؤں کے کونے پر موجود پرانی لائبریری گیا، جہاں وہ اکیلے بیٹھ کر ڈائری پڑھ سکتا تھا۔ ڈائری میں مینا نے سالم خان کی اصل حقیقت کو بے نقاب کیا تھا:

"سالم، جو سب کے سامنے نمازی، پرہیزگار اور غریبوں کا ہمدرد بن کر رہتا تھا، اندر سے ایک شیطان تھا۔ وہ مجھے مارتا، گالیاں دیتا، شک کرتا... اور پھر ایک دن، اُس نے مجھے اُس وقت مارا جب میں خاموشی سے نماز پڑھ رہی تھی..."

بلال کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔

ڈائری کے آخر میں ایک اور راز چھپا تھا:

"سالم خان نے میرے قتل کے بعد میرا بدن گاؤں کے قبرستان کے اس پرانے کنویں کے پاس دفن کیا... اور سب کو کہہ دیا کہ میں گھر چھوڑ کر چلی گئی ہوں۔"

یہ تحریر پڑھتے ہی بلال لرز اٹھا۔
"یعنی وہ لاش آج بھی... وہیں دفن ہے؟"

بلال نے وہ صفحہ محفوظ کر لیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر عدالت میں کوئی بات وزن رکھتی ہے، تو لاش، ہتھیار، اور قاتل کی پہچان۔
لیکن سالم خان محض ایک انسان نہیں تھا — وہ ایک نظام تھا۔ اس کی جیب میں پولیس، چوکیدار، اور پنچایت سب کے منہ بند تھے۔

اسی رات بلال قبرستان کے اُس حصے میں گیا، جو سنسان اور اجاڑ تھا۔ پرانا کنواں اب جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ میں چھوٹا بیلچہ لیا اور زمین کھودنی شروع کی۔

مگر ابھی دو فٹ کھودا ہی تھا کہ اسے کسی کی آہٹ سنائی دی۔ جیسے کوئی چھپ کر اسے دیکھ رہا ہو۔

بلال نے پلٹ کر دیکھا — کوئی نہ تھا، لیکن فضا میں ایک دباؤ سا تھا۔ اچانک کسی نے پیچھے سے ہاتھ رکھا اور دھیرے سے کہا:
"یہ جو کرنے جا رہے ہو، بلال... اس کی قیمت جان سے ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔"

بلال نے پلٹ کر دیکھا — یہ گاؤں کی ایک بزرگ عورت تھی، خالہ زبیدہ، جو برسوں سے کسی سے بات نہیں کرتی تھیں۔ وہ سادہ سی، خاموش، اور تنہا رہنے والی عورت تھیں۔ لوگ کہتے تھے وہ پاگل ہو چکی ہیں۔

"خالہ؟ آپ یہاں؟"

خالہ زبیدہ نے بلال کی آنکھوں میں دیکھا:
"مینا میری بھانجی تھی... میں جانتی ہوں کہ اسے کس نے مارا... اور میں برسوں سے انصاف کا انتظار کر رہی ہوں۔"

بلال حیران رہ گیا۔

"تو آپ کو سب کچھ معلوم تھا؟"

خالہ نے سر ہلایا،
"ہاں، پر میں کمزور تھی... تم کمزور نہیں ہو بلال، لیکن تمہیں اس راہ پر اکیلے نہیں چلنا ہوگا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔"

بلال نے آسمان کی طرف دیکھا۔ اب وہ صرف ایک انتقام کی جنگ نہیں لڑ رہا تھا، یہ ایک مظلوم کی روح کے انصاف کی لڑائی تھی۔

خالہ نے بلال کو بتایا:
"کل گاؤں کی پنچایت میں سالم خان کی عزت افزائی ہونے والی ہے، اگر تم کچھ ثابت کرنا چاہتے ہو... تو یہی وقت ہے۔"

بلال نے کہا:
"میں وہ سب کچھ لے کر آؤں گا جو ثابت کرے گا کہ مینا معصوم تھی... اور سالم خان ایک خونی۔"

صبح سورج ابھی پوری طرح نکلا بھی نہ تھا کہ پورے گاؤں میں ایک ہلچل سی مچ چکی تھی۔ آج پنچایت کے چبوترے پر سالم خان کی "خدمات" کے لیے اعزاز دیا جانا تھا۔ بڑے بڑے مہمان بلائے گئے تھے، گاؤں کے نمبردار، مولوی صاحب، حتیٰ کہ تحصیل دار بھی شریک تھا۔

سالم خان سفید تھوب، سنہرے عمامے اور رعونت بھری مسکراہٹ کے ساتھ چبوترے پر بیٹھا ہوا تھا، جیسے کوئی بادشاہ اپنی رعایا کو مخاطب کرنے والا ہو۔

ادھر بلال نے وہ ڈائری، خنجر، صندوق کا ثبوت، اور سب سے بڑھ کر — قبر سے نکالی گئی ہڈیوں اور زیور کا ایک چھوٹا سا بیگ — اپنی تھیلی میں رکھا۔ خالہ زبیدہ بھی اُس کے ساتھ تھیں، وہ جو برسوں سے خاموش تھیں، اب گواہ بننے جا رہی تھیں۔

جب سالم خان کی شان میں تعریفی تقریریں ہو رہی تھیں، بلال نے مجمع کے بیچ جا کر بلند آواز میں کہا:

"یہ اعزاز ایک قاتل کو دیا جا رہا ہے!"

پورے ہجوم میں سناٹا چھا گیا۔

سالم خان نے بلال کو دیکھا، جیسے شیر نے کسی ناسمجھ کو للکارا ہو:
"یہ لڑکا میرے خلاف بول رہا ہے؟ تم جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو؟"

بلال نے تھیلا کھولا، اور ایک ایک چیز سب کے سامنے نکال کر رکھنی شروع کی:

  1. مینا کی لکھی ہوئی ڈائری — جس میں ہر ظلم کا ذکر تھا

  2. وہ خنجر — جس پر مینا کے خون کے نشانات اب بھی موجود تھے

  3. پرانے صندوق کی زنجیر — جس میں وہ قید رکھی گئی

  4. اور سب سے آخری اور سب سے بڑا ثبوت — قبر سے ملی ہوئی ہڈیاں اور زیور جو مینا کا تھا

بلال نے چلا کر کہا:

"یہ ہیں اُس عورت کے نشان، جسے سالم خان نے مار کر دفنا دیا۔ اور سب کو کہا کہ وہ بھاگ گئی!"

گاؤں کی خواتین، جو ہمیشہ سالم خان کی داڑھی اور نماز کو اس کی نیکی کا نشان سمجھتی تھیں، اب کانپنے لگیں۔ مرد ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے لگے۔ سالم کا چہرہ لال ہو گیا۔

"جھوٹ! سب جھوٹ ہے!" سالم خان چلایا۔

بلال نے کہا:

"اگر یہ جھوٹ ہے، تو پولیس آ کر ڈی این اے ٹیسٹ کرے... ڈائری کا ہینڈ رائٹنگ میچ کروائے... اور گاؤں کی بزرگ، خالہ زبیدہ، جو اس کی خالہ تھیں — وہ گواہی دیں گی!"

خالہ زبیدہ آگے بڑھیں اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا:

"میں نے اپنی بھانجی کی چیخیں سنی تھیں۔ میں کمزور تھی، خاموش رہی۔ لیکن آج میں بول رہی ہوں — قاتل یہی ہے، سالم خان!"

پورا مجمع جیسے دھک سے رہ گیا۔ مولوی صاحب خاموش ہو گئے۔ نمبردار نے نظریں نیچی کر لیں۔ تحصیل دار نے پولیس کو اشارہ کیا — اور سالم خان کو حراست میں لے لیا گیا۔

جیسے ہی پولیس اسے لے جا رہی تھی، اس نے بلال کی طرف دیکھا اور غرایا:

"تم نے میرا سب کچھ چھین لیا! مگر یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، بلال!"

بلال نے سرد لہجے میں جواب دیا:
"کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی... لیکن انصاف کی شروعات ہو گئی ہے!"

سالم خان کے گرفتار ہونے کے بعد گاؤں کی فضا جیسے کچھ دنوں کے لیے بدل گئی تھی۔ لوگ اب بلال کو احترام کی نظروں سے دیکھتے، عورتیں اپنے بچوں کو اس کی بہادری کی مثال دے کر سکھاتیں کہ ظلم کے آگے خاموشی گناہ ہوتی ہے۔

لیکن بلال کو سکون نہیں تھا۔

عدالت میں مقدمہ شروع ہو چکا تھا، لیکن سالم خان کا اثر و رسوخ اب بھی ہر سمت موجود تھا۔ وکیل، جو پہلے کیس لینے کے لیے تیار تھے، اب ڈر کر پیچھے ہٹنے لگے۔ کئی گواہ اچانک خاموش ہو گئے۔ خالہ زبیدہ کو نامعلوم افراد سے دھمکیاں ملنے لگیں۔

ایک رات، بلال کے گھر پر پتھر پھینکا گیا۔ دروازے پر خون سے لکھا تھا:

"چپ نہ ہوا، تو قبر کھل جائے گی!"

بلال نے وہ پیغام مٹایا نہیں۔ اسے دیوار پر اسی طرح چھوڑ دیا — تاکہ ہر آنے والا دیکھے کہ سچ کی قیمت کیا ہوتی ہے۔


دوسری طرف جیل میں سالم خان خاموش نہیں بیٹھا تھا۔ اس نے اپنی بیوی کی موت کو خودکشی قرار دینے کی کوشش کی۔ اس کا وکیل عدالت میں چیخ چیخ کر بلال کو جھوٹا اور بدنیت قرار دیتا رہا۔ کہتا،
"یہ لڑکا شہرت چاہتا ہے۔ ایک بوڑھے مرد کو بدنام کر رہا ہے، صرف کچھ ٹوٹے پھوٹے ثبوتوں پر!"

لیکن جب عدالت میں خالہ زبیدہ کی گواہی ہوئی، جب وہ لرزتی آواز میں کہتی ہیں:

"میں نے اپنی بھانجی کے جسم پر نیل دیکھے تھے... میں نے اسے قید ہوتے دیکھا... اور پھر... اچانک وہ چلی گئی... میں نے ڈر کے مارے منہ بند رکھا، مگر آج میں بول رہی ہوں — کیونکہ مینا نے مر کر مجھے جگا دیا ہے!"

پورے کورٹ روم میں سناٹا چھا گیا۔

جج کی آنکھوں میں بھی نمی تھی۔


مگر اصل دھچکا تب لگا جب بلال نے عدالت میں مینا کی آخری تحریر پڑھ کر سنائی، جو ڈائری کے آخری صفحے پر لکھی گئی تھی:

"اگر یہ صفحہ کبھی کسی کے ہاتھ لگے، تو جان لو... میں مر چکی ہوں۔ مگر میری موت کا راز اگر کسی نے کھولا، تو وہ اس ظالم کے خلاف آواز ضرور بلند کرے۔ بلال، اگر تم یہ پڑھ رہے ہو، تو جان لو، میں تمہیں اپنا بھائی سمجھتی تھی۔ میری خاطر مت جھکنا۔ سچ کا راستہ بہت کٹھن ہوتا ہے، مگر وہی راہ جنت کی طرف لے جاتی ہے۔"

بلال کی آواز کپکپا گئی، لیکن اُس کی آنکھوں میں آگ تھی۔


اب فیصلہ قریب تھا۔

سالم خان کا چہرہ عدالت میں سخت، لیکن اندر سے خوفزدہ تھا۔ اس کے وکیل کے پاس الفاظ کم پڑ گئے تھے۔

اور بلال... اُس نے جیت سے پہلے ہی اپنی ماں، اپنی بہن، اور مینا کے لیے دعا کرنی شروع کر دی تھی۔


عدالت میں خاموشی تھی، ایک ایسی خاموشی جس میں دنیا کی سب سے بڑی گونج تھی۔ سالم خان کا مستقبل چہرے پر لکھی گئی دھوکہ دہی اور خوف کے سائے میں تھا۔ بلال کا دل تیز دھڑک رہا تھا، مگر وہ جانتا تھا کہ یہ لمحہ اس کے زندگی کا سب سے اہم لمحہ تھا۔

جج نے چمکدار لکیر والے عینک کو ہٹایا، اپنے کاغذات سامنے رکھے اور پھر کھڑا ہو کر فیصلہ سنانے کے لیے مائیک کے قریب آیا۔ پورے عدالت میں ایک گہری سانس رک گئی تھی۔

"عدالت نے یہ ثابت کیا ہے کہ مینا کی موت خودکشی نہیں تھی، بلکہ ایک قتل تھا... اور یہ قتل سالم خان نے کیا ہے۔" جج کی آواز صاف اور پُرعزم تھی۔

بلال کی آنکھوں میں آنسو تھے، مگر ان آنسوؤں میں دکھ نہیں تھا، بلکہ ایک سکون تھا، ایک اطمینان تھا کہ جس سچ کے لیے وہ جنگ لڑ رہا تھا، وہ آخرکار جیت چکا تھا۔

سالم خان کا چہرہ سفید پڑ چکا تھا، اس کے جسم پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں۔ اس کا منہ کھلا تھا، لیکن الفاظ کہیں کھو گئے تھے۔ وہ اُٹھ کر عدالت سے باہر جانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن پولیس کے افسران فوراً آگے بڑھتے ہیں اور اُسے گرفتار کر لیتے ہیں۔


گاؤں واپس آتے ہوئے، بلال کو خوشی کا احساس تھا، مگر اس کے دل میں کچھ خلا بھی تھا۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ آیا وہ اس جنگ میں جیتنے کے بعد کیا کرے گا، یا اس کے بعد کی زندگی کس سمت میں جائے گی۔

یادوں کا بوجھ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے، اور جو کچھ گزر چکا تھا، وہ اس کے دل میں کبھی نہ ختم ہونے والی ایک کتاب کی طرح تھا۔

لیکن ایک بات واضح تھی: مینا کی قربانی ضائع نہیں گئی۔


خالہ زبیدہ بلال کے ساتھ تھی، جیسے وہ ہمیشہ رہی تھی۔ گاؤں کے لوگ اب بلال کو ایک ہیرو کی نظر سے دیکھتے تھے، لیکن اس کے اندر کا سکون کچھ مختلف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ انصاف کا کوئی اور دروازہ نہیں ہوتا، اور یہ جو دروازہ کھلا ہے، وہ صرف سچ کے ذریعے ہی کھلتا ہے۔

ایک دن، جب بلال اپنی چھت پر بیٹھا تھا، وہ سوچ رہا تھا:

"مینا نے مر کر مجھے سچ دکھایا۔ سالم خان کی ظالمانہ حقیقت کو بے نقاب کیا۔ مگر کیا سچ ہمیشہ اتنا ہی کڑوا ہوتا ہے؟ کیا اس کے بعد میری زندگی میں کبھی بھی سکون آ سکے گا؟"

وہ اپنے سوالات کا جواب تلاش رہا تھا، لیکن اس نے اپنے دل میں ایک بات سیکھ لی تھی: "سچائی کو ہمیشہ جیتنا ہوتا ہے، چاہے اس کے راستے میں کتنے ہی کانٹے کیوں نہ ہوں۔"


جب سالم خان کو اس کی سزا ملی، وہ جیل میں کٹ گئی۔ اس کی زندگی میں ایک اندھیری رات آئی تھی، مگر بلال کی زندگی میں روشنی تھی۔ عدالت کے فیصلے کے بعد گاؤں میں ایک نیا باب کھل چکا تھا۔

بلال کا دل اب ایک نئی جنگ کے لیے تیار تھا، لیکن یہ جنگ کسی ظالم کے خلاف نہیں تھی، بلکہ یہ جنگ اب وہ اپنے آپ سے لڑنے والا تھا — اپنے اندر کے سوالات سے۔

بلال نے سوچا تھا کہ مینا کی موت کے بعد، اور سالم خان کی گرفتاری کے ساتھ، اس کی زندگی بالآخر سکون پا جائے گی۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ حقیقی جنگ اب شروع ہونے والی تھی۔ ایک ایسا جنگ جس کا دشمن اس کا اپنا دل اور دماغ تھا۔

گاؤں کے لوگ بلال کو ایک ہیرو کی طرح دیکھ رہے تھے، مگر بلال کا دل ایک خاموش اور خالی جگہ میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ اکیلا تھا، اور جب بھی وہ رات کو اپنے بستر پر پڑا، مینا کی آنکھیں اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتیں۔

"کیا تم نے واقعی انصاف حاصل کیا ہے؟"

یہ سوال ہمیشہ اس کے دماغ میں گونجتا رہتا تھا۔ کیا اس نے سالم خان کو سچ میں سزا دلوا کر صحیح کیا؟ کیا اسے مینا کی موت کا بدلہ لینا تھا، یا پھر اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کا؟

وہ اپنے اندر کی جنگ کو سمجھنے کی کوشش کرتا، لیکن ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اس کا دل مزید بکھرتا گیا۔


ایک رات، بلال اپنے کمرے میں بیٹھا تھا، اور دروازہ کھٹکا۔ دروازہ کھولتے ہی سامنے خالہ زبیدہ کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں فکر اور محبت کی جھلک تھی۔

"بلال، تم ٹھیک ہو؟ تمہارا دل کہیں ٹوٹ تو نہیں گیا؟"

بلال نے سر جھکاتے ہوئے کہا: "خالہ، میں خود کو سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔ میں نے مینا کے لیے انصاف کے لیے لڑا، مگر میں اپنے اندر کے خلا کو کیسے بھروں گا؟ کیا مجھے حقیقت میں سکون ملے گا؟"

خالہ زبیدہ نے آہستہ سے اس کا ہاتھ تھاما اور کہا: "بلال، تمہیں یاد رکھنا ہوگا کہ سچ کا راستہ ہمیشہ سیدھا نہیں ہوتا۔ تمہاری لڑائی صرف مینا کے لیے نہیں تھی، بلکہ تمہارے اندر کی ایک حقیقت کو سامنے لانے کے لیے تھی۔ اور وہ حقیقت یہ ہے کہ تم نے محبت کو ترجیح دی، تم نے انصاف کو اہمیت دی۔"

بلال خاموشی سے خالہ کی باتوں کو سنتا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ خالہ زبیدہ ہمیشہ اس کی رہنمائی کرتی ہے، مگر اس کے دل میں ایک سوال تھا:

"لیکن کیا یہ کافی ہے؟ کیا صرف سچائی سے سکون مل سکتا ہے؟"


اگلے دن بلال گاؤں کے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا، جب اسے ایک شخص کی آواز سنائی دی۔

"بلال، تمہارے والد کے ساتھ جو ہوا، کیا تم اس کا بدلہ لینا چاہتے ہو؟"

بلال نے سر اٹھا کر دیکھا، سامنے سالم خان کا ایک پرانا دوست کھڑا تھا۔ اس شخص کی آنکھوں میں چمک تھی، اور وہ بلال کے سامنے ایک تجویز رکھ رہا تھا۔

"اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے والد کی عزت کا بدلہ لیا جائے، تو تمہیں میرے ساتھ آنا ہوگا۔ میں تمہیں سالم خان کے رازوں تک پہنچا سکتا ہوں۔"

بلال کی آنکھوں میں غصہ تھا، مگر اس کا دماغ تیزی سے چل رہا تھا۔ اس کے سامنے دو راستے تھے: ایک راستہ وہ تھا جو اسے انصاف کے راستے پر لے جاتا تھا، اور دوسرا راستہ وہ تھا جس پر انتقام کی راہ تھی۔

بلال کی سانسیں تیز ہو گئیں، اس کے اندر کی جنگ شدت اختیار کر گئی تھی۔ "کیا میں پھر سے انتقام کے راستے پر چلوں گا؟ کیا میں وہ سب کچھ کر سکتا ہوں جو مینا کی موت کے بعد مجھے دکھائی دے رہا ہے؟"

یہ سوال اس کے اندر گونج رہا تھا، اور وہ فیصلہ کرنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے رک گیا۔ اس نے وہ لمحہ گزارا جب اس کے ذہن میں ان تمام لوگوں کی تصاویر آئیں، جنہوں نے اس کی زندگی کو بدلا تھا۔ اور پھر ایک آواز آئی، جو اس کے دل کی گہرائیوں سے نکلی:

"سچ کو ہمیشہ جیتنا ہوگا، اور انتقام کبھی سکون نہیں دیتا۔"


بلال نے فیصلہ کیا کہ وہ اس راستے پر نہیں جائے گا جو انتقام کی طرف لے جاتا ہے۔ اس نے سالم خان کے دوست کو انکار کیا، اور اس کے بعد وہ درخت کے نیچے بیٹھا، گہری سانسیں لیتا رہا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب اس کا کام صرف سچ کو دنیا تک پہنچانا ہے، اور اس کے بعد وہ سکون حاصل کرے گا۔

جب بلال واپس گھر آیا، تو خالہ زبیدہ نے اس کی آنکھوں میں سکون دیکھا، اور اسے گلے لگا لیا۔

"میں جانتی تھی، بلال۔ تم نے وہ فیصلہ کیا جو تمہاری روح کی گہرائیوں سے آیا تھا۔"


بلال نے اپنی زندگی کے اگلے سفر کا آغاز کیا، ایک ایسا سفر جو صرف سچ اور انصاف کی روشنی میں تھا۔ اور مینا کی روح اب سکون سے تھی، کیونکہ اس کی موت کا بدلہ صرف انصاف نہیں، بلکہ سچائی کی فتح تھی۔

بلال کا فیصلہ، جس نے انتقام کے بجائے سچائی کی طرف قدم بڑھایا تھا، اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ لے آیا تھا۔ لیکن یہ راہ بھی اتنی آسان نہیں تھی جتنی وہ سوچ رہا تھا۔ گاؤں والوں نے، جو اسے ایک ہیرو سمجھتے تھے، اب اس کی خاموشی اور اندر کی لڑائی کو محسوس کرنا شروع کیا تھا۔

ایک دن، بلال گاؤں کے کنارے پر بیٹھا تھا، جب اسے ایک دھیمی آواز سنائی دی۔ سامنے کی طرف ایک بوڑھی عورت آ رہی تھی، جو بلال کو ہمیشہ اپنے بیٹے کی طرح سمجھتی تھی۔

"بلال، کیا تم نے وہ فیصلہ کیا جسے تم سچ سمجھتے تھے؟" عورت نے پوچھا، اور بلال نے سر جھکاتے ہوئے کہا:

"ہاں، خالہ، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں سچ کے راستے پر چلوں گا، چاہے وہ کتنا بھی مشکل ہو۔"

خالہ نے اس کے چہرے پر گہری نظر ڈالی اور کہا: "تمہارے اندر جو جذبہ ہے، وہ تمہیں سچائی تک پہنچائے گا، لیکن یاد رکھو، سچ کا راستہ ہمیشہ چمکدار نہیں ہوتا۔"

بلال نے اس کی باتوں کو سنا اور سوچا کہ سچ میں کتنی مشکلات چھپی ہوتی ہیں۔ جب تک انسان ان مشکلات کا سامنا نہیں کرتا، وہ نہیں جان سکتا کہ سچائی کا راستہ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔


چند دن بعد، بلال کو ایک اور مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ سالم خان کے قریبی ساتھیوں نے گاؤں میں آ کر اس پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ بلال سالم خان کی حمایت کرے اور اس کے ساتھ مل کر گاؤں کی زمینوں پر قبضہ کرے۔

"بلال، تمہاری سچائی تمہیں اب تک محفوظ رکھے ہوئے ہے، لیکن کیا تمہیں پتہ ہے کہ سچ کا راستہ تمہیں مزید مشکلات میں ڈالے گا؟ اگر تم ہمارے ساتھ نہیں آتے، تو تمہارے لیے گاؤں میں جگہ نہیں ہوگی۔"

یہ الفاظ بلال کے ذہن میں گونجتے رہے۔ وہ جانتا تھا کہ ان لوگوں کا مقصد صرف طاقت کا حصول ہے، اور وہ کبھی بھی سچائی کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ لیکن اس کے اندر بھی ایک جنگ چل رہی تھی۔ کیا وہ ان لوگوں کے سامنے ہار مان لے گا؟ یا پھر وہ اپنے اصولوں پر قائم رہے گا؟

اس دن بلال نے اپنے دل میں ایک عہد کیا کہ وہ ان لوگوں کے سامنے کبھی نہیں جھکے گا۔ وہ گاؤں کے لوگوں کے ساتھ کھڑا رہے گا، اور ان کا ساتھ دے گا جو سچائی کے راستے پر چلنے کے لیے تیار ہیں۔


اگلے دن، بلال گاؤں کے مرکز میں کھڑا تھا، اور اس کے سامنے وہ تمام لوگ جمع ہو گئے تھے، جو ہمیشہ انصاف کے خواہش مند تھے۔ بلال نے ان سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

"میرے پیارے دوستو، ہم نے بہت ساری جنگیں لڑیں، بہت ساری قربانیاں دیں، اور اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس طرف جائیں گے۔ کیا ہم اپنی زندگیوں میں سچائی اور انصاف کے راستے پر چلیں گے؟ یا پھر ہم ظلم کے سامنے سر جھکا دیں گے؟"

گاؤں کے لوگ خاموش تھے، مگر ان کی آنکھوں میں ایک نیا عزم دکھائی دے رہا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ بلال نے ایک مشکل راستہ منتخب کیا ہے، مگر وہ اس کے ساتھ تھے۔


بلال نے سالم خان کے قریبی ساتھیوں کو ان کے فیصلے کے بارے میں بتا دیا، اور صاف کہا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں ملے گا۔ اس فیصلے نے گاؤں میں ایک نئی امید کی لہر دوڑا دی۔ وہ جانتے تھے کہ بلال کا یہ فیصلہ ان کے لیے بھی ایک سبق ہے۔

چند دن بعد، بلال نے گاؤں کے لوگوں کے ساتھ مل کر ایک نیا منصوبہ بنایا، تاکہ سالم خان اور اس کے ساتھیوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس منصوبے میں گاؤں کی زمینوں کی حفاظت، لوگوں کی مدد، اور ایک نئے انصاف کا نظام شامل تھا۔

بلال کا دل اب سکون سے بھرا تھا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کا راستہ سچ کا تھا، اور وہ اب گاؤں کے لوگوں کی زندگیوں میں ایک نئی روشنی لانے میں کامیاب ہو گا۔


ایک شام، بلال گاؤں کے کنارے پر بیٹھا تھا، جب اس نے مینا کی تصویر اپنے ذہن میں دیکھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، مگر اس کے دل میں سکون تھا۔

"مینا، تمہاری قربانی کے بدلے میں، میں نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ تمہاری روح کو سکون دے گا۔ تمہاری موت نے مجھے سچ کی طرف بڑھایا ہے، اور اب میں تمہیں کبھی نہیں بھولوں گا۔"

بلال نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ایک گہری سانس لی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا، مگر وہ اس راستے پر چلنے کے لیے تیار تھا

بلال کا سفر سچائی کے راستے پر اس قدر پیچیدہ اور سنگین ہوتا جا رہا تھا کہ اسے ہر دن ایک نیا چیلنج درپیش ہوتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سالم خان اور اس کے ساتھی کبھی نہیں رُکیں گے، اور ان کے راستے میں روکاوٹیں ڈالنے کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کریں گے۔

ایک دن بلال کو ایک اہم اطلاع ملی۔ گاؤں کے باہر ایک بڑا اجلاس ہونے جا رہا تھا جس میں سالم خان اور اس کے حامی، گاؤں کے بڑے وڈیرے اور بعض طاقتور لوگ شریک ہونے والے تھے۔ یہ اجلاس گاؤں کی زمینوں کے مستقبل پر ایک فیصلہ کرنے کے لیے بلایا گیا تھا، اور بلال کے لیے یہ ایک بڑا موقع تھا کہ وہ اپنے اصولوں کو واضح کرے اور گاؤں کے لوگوں کو سچ کا پیغام دے۔

بلال نے گاؤں کے بزرگوں اور اپنے چند قابل اعتماد ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ لمحہ بہت اہم ہے۔ یہ نہ صرف اس کی زندگی کا اہم موڑ ہوگا بلکہ گاؤں کے مستقبل کے لیے بھی ایک فیصلہ کن لمحہ ثابت ہو سکتا تھا۔


اجلاس کے دن بلال نے گاؤں کے مرکز پر جمع ہونے والے لوگوں کو خطاب کیا:

"میرے پیارے دوستو، میں جانتا ہوں کہ ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، اور آج جو اجلاس ہو رہا ہے، وہ ہماری زمینوں اور ہمارے حقوق کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ سب میری آواز سنیں، اور جو فیصلہ ہم کرنے جا رہے ہیں، وہ سچائی اور انصاف کے راستے پر ہو۔"

بلال کا یہ خطاب لوگوں کے دلوں میں گہرا اثر چھوڑ گیا۔ وہ جانتے تھے کہ بلال ہمیشہ سچائی کے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہے، اور اس کا حوصلہ انہیں بھی ایک نیا عزم دیتا تھا۔

اسی دوران، سالم خان اور اس کے ساتھیوں نے بلال کی باتوں کو چیلنج کرنا شروع کیا۔ سالم خان نے چہرے پر ایک زہر آلود مسکراہٹ کے ساتھ کہا:

"بلال، تمہاری سچائی کے شوق نے تمہیں بہت دور تک پہنچا دیا ہے، مگر تمھیں سمجھنا ہوگا کہ یہ دنیا صرف سچائی پر نہیں چلتی۔ ہمیں طاقت اور وسائل کی ضرورت ہے، اور ہم اپنے مفادات کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔"

بلال نے اسے چپ چاپ سنا، پھر اس کی آنکھوں میں ایک نئی چمک آئی۔ اس نے بڑے اعتماد سے کہا:

"سالم خان، تمہاری باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ تم نے اپنے ضمیر کو بیچ دیا ہے، مگر میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ سچائی ہمیشہ جیتتی ہے، اور جو لوگ انصاف کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، وہ کبھی ہار نہیں سکتے۔"

اجلاس میں ایک سنجیدہ خاموشی چھا گئی۔ گاؤں کے لوگ بلال کی باتوں پر غور کر رہے تھے، اور ان کے دلوں میں ایک نیا جذبہ پیدا ہو رہا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ بلال کا راستہ مشکل ہو گا، مگر یہ بھی جانتے تھے کہ وہ جو فیصلہ کریں گے، وہ سچائی کی طرف ہی ہوگا۔


چند دن بعد، گاؤں میں ایک اور تبدیلی آئی۔ بلال اور اس کے ساتھیوں نے سالم خان کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے میں گاؤں کے لوگوں کو اکٹھا کیا گیا تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکیں اور سالم خان کے ظلم کا مقابلہ کر سکیں۔ بلال نے گاؤں کے لوگوں کو اپنے ساتھ کھڑا کرنے کے لیے ایک تنظیم بنائی، جس میں سب کا ایک ہی مقصد تھا: سچائی اور انصاف کے لیے لڑنا۔

اسی دوران، بلال کو ایک نیا چیلنج سامنے آیا۔ سالم خان نے گاؤں کے زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے غیر قانونی طریقوں کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ اس کے اثرورسوخ والے لوگ گاؤں کے لوگوں کو دھمکیاں دے رہے تھے، اور ان کا مقصد صرف اپنے مفادات کا تحفظ تھا۔

بلال کو فیصلہ کرنا تھا کہ وہ کیسے اس ظلم کا مقابلہ کرے گا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ وہ سالم خان کے خلاف عدالت میں کیس دائر کرے گا، تاکہ اس کے ظلم کا پردہ فاش کیا جا سکے۔


عدالت کا دن قریب آ رہا تھا۔ بلال اور اس کے ساتھی عدالت میں حاضر ہوئے، اور سالم خان کے خلاف اپنے الزامات پیش کیے۔ سالم خان نے اپنی طاقتور پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلال کو دبانے کی کوشش کی، مگر بلال نے اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔

عدالت میں ہونے والی اس لڑائی نے گاؤں کے لوگوں میں ایک نئی امید پیدا کی۔ بلال کی سچائی کی جدوجہد اور اس کی قربانیاں ان کے دلوں میں جگہ بنا رہی تھیں۔


آخرکار، عدالت نے بلال کے حق میں فیصلہ سنایا۔ سالم خان اور اس کے ساتھیوں کی سازشیں بے نقاب ہو گئیں، اور گاؤں کے لوگ اب آزاد ہو چکے تھے۔ بلال نے اپنے سفر کے دوران جو سچائی کا راستہ چنا تھا، اس کی جیت ہوئی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی لڑائی ابھی مکمل نہیں ہوئی، مگر وہ خوش تھا کہ اس نے سچائی کی طرف قدم بڑھایا۔

بلال کے دل میں مینا کی یاد ہمیشہ زندہ رہی۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کبھی بھی اپنی بیوی کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دے گا، اور اب وہ جانتا تھا کہ مینا کی روح کو سکون تب ملے گا جب سچ کا راستہ پورے گاؤں میں جیت جائے گا۔

عدالت کے فیصلے کے بعد بلال کی زندگی میں ایک نیا باب کھلا۔ اس کی جیت نے نہ صرف گاؤں کے لوگوں کو ایک نئی امید دی، بلکہ اس کے دل میں بھی ایک نئی طاقت بھر دی تھی۔ سالم خان اور اس کے ساتھیوں کی شکست نے اس کی سچائی کے راستے پر چلنے کے عزم کو مزید پختہ کر دیا۔ اب وہ سمجھ چکا تھا کہ سچائی کی طاقت صرف الفاظ میں نہیں، بلکہ عمل میں بھی ہوتی ہے۔

بلال کی جیت کا جشن پورے گاؤں میں منایا گیا۔ گاؤں کے لوگ اس کی بہادری اور قربانیوں کی قدر کرتے ہوئے اس کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ جیت صرف بلال کی نہیں، بلکہ ان سب کی جیت ہے جو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت رکھتے ہیں۔

بلال کے لیے یہ لمحہ خوشی کا تھا، مگر اس کا دل ہمیشہ مینا کی یادوں میں گم تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مینا کی قربانی بے فائدہ نہیں جائے گی، کیونکہ اس نے جو راستہ دکھایا تھا، وہ راستہ اب پورے گاؤں میں روشنی بن چکا تھا۔


ایک دن بلال اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ گاؤں کے میدان میں بیٹھا تھا، جب ایک بزرگ شخص نے اس سے ملاقات کی۔ بزرگ کا نام حاجی رشید تھا، اور وہ گاؤں کے سب سے زیادہ عزت دار افراد میں سے ایک تھے۔ حاجی رشید نے بلال کے سامنے آ کر کہا:

"بلال بیٹا، تم نے جو کام کیا ہے، وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ تم نے نہ صرف اپنے لیے، بلکہ پورے گاؤں کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تم اس گاؤں کو ایک نئی سمت دو، اور میں چاہتا ہوں کہ تم گاؤں کے نئے رہنما بنو۔"

بلال نے حیرت سے حاجی رشید کی طرف دیکھا۔ وہ جانتا تھا کہ رہنمائی کا بوجھ آسان نہیں ہوتا، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک نیا عزم جاگ رہا تھا۔

"میرے لیے یہ ایک بڑا اعزاز ہے، حاجی صاحب۔ لیکن میں ہمیشہ سچائی کے راستے پر چلنے کی کوشش کروں گا، چاہے یہ راستہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔ اگر گاؤں کے لوگ مجھے اپنے رہنما کے طور پر منتخب کرتے ہیں، تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں کبھی بھی ان کی حمایت نہیں چھوڑوں گا۔"

حاجی رشید مسکراتے ہوئے بلال کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:

"تمہاری باتوں میں سچائی اور عزم کی جھلک ہے، بلال۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ گاؤں کی تقدیر تمہارے ہاتھوں میں ہے، اور تمہیں سچائی کے راستے پر چلنا ہی ہوگا، کیونکہ تمہاری جیت سے ہی ہمارے تمام مسائل حل ہوں گے۔"


بلال نے گاؤں کے رہنما بننے کا فیصلہ کیا، اور اس کی قیادت میں گاؤں کے لوگوں نے مزید اتحاد اور مضبوطی دکھائی۔ اب وہ گاؤں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے نئے منصوبے بنانے لگا، جس میں تعلیم، صحت، اور انصاف کو اہمیت دی گئی۔

گاؤں میں ایک اسکول قائم کیا گیا، جہاں بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ، ایک صحت کا مرکز بھی بنایا گیا تاکہ لوگوں کو بہترین علاج مل سکے۔ بلال جانتا تھا کہ صرف بنیادی ضروریات کو پورا کرنے سے گاؤں کی تقدیر نہیں بدلے گی، بلکہ اس کے لوگوں کو ایک بہتر زندگی دینے کے لیے اسے زیادہ محنت اور سوچ بچار کرنا ہوگا۔

اس دوران، سالم خان اور اس کے باقی حامیوں نے دوبارہ سر اٹھانے کی کوشش کی۔ وہ گاؤں کے نئے نظام کو اپنے مفاد کے لیے خطرہ سمجھتے تھے اور اسے ختم کرنے کے لیے سازشیں کر رہے تھے۔ لیکن بلال اب پہلے سے زیادہ مستعد تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ان کی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہوگا، اور وہ اس میں کامیاب ہو گا۔


ایک دن بلال کو اطلاع ملی کہ سالم خان نے گاؤں کے کچھ افراد کو رشوت دے کر ان کے دلوں میں بدگمانی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن بلال نے اپنے اصولوں کے مطابق فیصلہ کیا کہ وہ کبھی بھی کسی کی حمایت کے لیے رشوت یا دھوکہ دہی کا سہارا نہیں لے گا۔

بلال نے فیصلہ کیا کہ وہ سالم خان کے خلاف ایک اور قانونی کارروائی کرے گا، تاکہ اس کے گاؤں کے لوگوں پر مزید اثرات مرتب نہ ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ گاؤں کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتا رہا تاکہ لوگوں میں سچائی کے بارے میں آگاہی پیدا کی جا سکے۔


وقت گزرتا گیا اور بلال کی قیادت میں گاؤں میں بڑی تبدیلی آئی۔ لوگ اب پہلے سے زیادہ متحرک اور تعلیم یافتہ ہو چکے تھے۔ گاؤں کی خواتین نے بھی اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا شروع کر دی تھی، اور بچوں کے چہرے خوشی سے روشن تھے کیونکہ اب ان کے لیے ایک روشن مستقبل تھا۔

بلال کو اب یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا سفر مکمل ہو چکا ہے۔ اس نے مینا کی قربانی کو یوں ضائع نہیں ہونے دیا، بلکہ اس کی زندگی کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک نیا راستہ بنایا تھا۔


ایک دن بلال اپنے گھر کے قریب میدان میں بیٹھا تھا، جب اچانک اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ مینا کو یاد کر رہا تھا، اور اس کے دل میں ایک خاموش دعا تھی:

"مینا، تمہاری قربانی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ تمہاری محبت اور حمایت میرے ساتھ ہمیشہ رہے گی۔ اس گاؤں کی تقدیر تمہاری دعاؤں کی بدولت بدل چکی ہے، اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں ہمیشہ سچائی اور انصاف کے راستے پر چلوں گا۔"

بلال کا دل مطمئن تھا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی جدوجہد نے گاؤں کے لوگوں کے دلوں میں سچائی، محبت اور امن کی روشنی پیدا کر دی تھی

Post a Comment

0 Comments